آن لائن گیم کھیلنے سے منع کرنے پر نوجوانوں کی خود کشیاں، پولیس کا ’پب جی‘ بند کروانے پر غور


What's the end of the Pub G game?

لاہور پولیس کے مطابق شہر میں چار روز میں دو نوجوانوں نے ویڈ یو گیم ’پب جی‘ کھیلنے سے منع کرنے پر خودکشی کر لی ہے، جس کے بعد پولیس کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ایسی تمام پُرتشدد گیمز اور آن لائن پیجز کو بلاک کرنے کے لیے پی ٹی اے کو درخواست دی جائے گی۔

اطلاعات کے مطابق لاہور کی ملتان روڈ کے رہائشی، 16 سالہ نوجوان نے خودکشی کا فیصلہ اس وقت کیا جب اس کے والدین نے اسے آن لائن گیم کھیلنے سے منع کیا اور اس نے اپنے آپ کو پنکھے سے لٹکا کر خودکشی کر لی۔

پولیس کے مطابق خودکشی کرنے کے بعد بھی اس کے موبائل پر پب جی گیم چل رہی تھی۔

اس واقع سے دو روز قبل بھی شہر کے ایک اور 20 سالہ نوجوان نے اسی گیم کی وجہ سے اپنے آپ کو پنکھے سے لٹکا کر اپنی جان لے لی تھی۔

ڈی آئی جی آپریشنز اشفاق خان نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ تشدد کو فروغ دینے والی گیمز کے باعث نوجوانوں میں خودکشی کرنے کا رجحان بڑھنا ایک افسوک ناک اور تشویش ناک عمل ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ گیمز ایک نشے کی طرح ہیں جس کی لت لگ جاتی ہے اس لیے والدین اور بچوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اوپر اختیار رکھتے ہوئے ایسی گیمز زیادہ نہ کھیلیں۔


پب جی گیم میں آخر ہے کیا؟ disadvantages of  pup g

پب جی گیم میں آخر ہے کیا؟
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے پب جی کھیلنے والے ایک صارف نے بتایا کہ یہ گیم ایک مشن کے تحت کھیلا جاتا ہے جس میں دشمن سے مقابلہ ہوتا ہے اور اس کے لیے بندقوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔
صارف نے بتایا: 'گیم ہم اکیلے بھی کھیل سکتے ہیں اور ایک سے زائد لوگ بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اس لیے اپنے دفاع کے لیے ہمیں دشمن کو مار کر گیم جیتنی ہوتی ہے۔'
ان کا مزيد کہنا تھا کہ وہ کمپیوٹر پر یہ گیم کھیلتے ہیں اور 'کیونکہ یہ گیم آن لائن چل رہی ہوتی ہے اس لیے اس دوران آپ اس گیم کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر آپ کھانا کھانے جا رہے یا کسی بھی کام کے لیے اٹھیں گے تو دوسری پارٹی آپ کو مار دے گی۔'
صارف نے مزید بتایا کہ اس گیم کی دو اقسام ہیں۔ ایک وہ جو کمپیوٹر پر کھیلی جاتی ہے اور دوسری وہ جو موبائل پر لوگ کھیلتے ہیں۔
موبائل پر کھیلی جانے والی پب جی گیم میں آپ کے پاس بہت ہی آپشنز ہوتی ہیں جیسے کہ آپ کپڑے اور اپنا اسلحہ بھی تبدیل کر سکتے ہیں۔
دنیا بھر میں یہ گیم کھیلی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہر جگہ سے اس کے منفی اثرات کی شکایات آنے بعد گیم میں ایک اور فیچر متعارف کروایا گیا ہے جس کی مدد سے بتایا جاتا ہے کہ آپ کا سکرین ٹائم بہت زیادہ ہو گیا ہے اس لیے اب گیم کو بند کر دیں۔
لیکن یہ اب یہ کھیلنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اسے وقت پر بند کرتا ہے یا پھر کھیلتا رہتا ہے۔
     ایسی گیمز پر پابندی ہونی چاہیے' ڈی آئی جی آپریشنز اشفاق خان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس کا کام صرف مجرموں کو پکڑنا ہی نہیں ہے۔ہماری اور بھی ذمہ داریاں ہیں جیسے کہ کمیونٹی پولیسنگ جس کے تحت ہمیں اپنے معاشرے میں شدت پسندی اور رویوں میں تبدیلی آنا اور ان پر نظر رکھنا بھی ہماری ذمہ داری کا حصہ ہیں۔
      اس لیے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو ایک درخواست دیں گے کہ وہ خود ایسی تمام گیمز جس میں پب جی بھی شامل ہیں، جس میں تشدد کا عنصر پایا جاتا ہے، انھیں پیچھے سے بلاک کر دیا جائے تاکہ صارفین تک ان کی رسائی نہ ہو۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام ایپلیکیشنز اور آن لائن پیجیز کو بلاک کرنے کا اختیار صرف پی ٹی اے پاس ہی ہے۔'ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی اے کے پاس ایسے لوگ موجود ہیں جو آن لائن مواد کا جائزہ اور تجزیہ کر سکتے ہیں جس سے معاشرے میں شدت پسندی پھیل رہی ہو کیونکہ ہو سکتا ہے کہ پب جی کے علاوہ بھی بہت سی ایسی گیمز موجود ہوں جن کا ہمیں پتا ہی نہ ہو، اس لیے ہم صرف دخواست ہی کر سکتے ہیں۔

کیا واقعی ہی پبجی جیسی گیمز خودکشی کا باعث بن سکتی ہیں؟
کیا واقعی ہی پبجی جیسی گیمز خودکشی کا باعث بن سکتی ہیں؟
اس بار میں ماہر نفسيات ڈاکٹر فرح ملک نے بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میرے خیال میں اگر یہ کہا جائے کہ کسی بچے یا نوجوان نے صرف گیم کی وجہ سے خودکشی کی تو یہ غلط ہوگا کیونکہ ایس ممکن نہیں ہے کہ خود کشی کرنے کی صرف ایک وجہ ہو۔
    انھوں نے بتایا کہ ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو کورونا کی وجہ سے ہر شخص ہی اس وقت الجھن اور مایوسی کا شکار ہے اور بچوں میں یہ رویا زیادہ اس لیے بھی بڑھ رہا ہے کیونکہ وہ اپنی پریشانی کا اظہار با آسانی نہیں کرتے ہیں۔
عمموماً بچے اور نوجوان اپنے دوستوں کے ساتھ یا سکول میں یا گھر سے باہر نکل کر وقت گزار لیتے تھے لیکن اب ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہے اور وہ سب گھروں میں محسور ہیں۔ ایسے میں ان کے پاس ڈیجیٹل گیمز کھیلنے یا پھر آن لائن سرچ کرنے کے علاوہ کچھ اور موجود نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے وہ زیادہ تر وقت انھیں کھلیے میں ہی گزارتے ہیں۔'
انھوں نے مزيد بتایا کہ جو بچے خود کشی جیسا بڑا قدم اٹھاتے ہیں ان کی شخصیت میں پہلے سے ہی ایسے خیالات موجود ہوتے ہیں اور اس کی وجہ ایک صرف ایک عنصر نہیں ہے۔
'ہم نے دیکھا ہے کہ جب بچے بڑے ہو رہے ہوتے ہیں تو ان میں بہت سی ہارمونل تبدلیاں آرہی ہوتی ہیں۔ جیسے لڑکوں میں آواز کا تبدیل ہونا یا جسمانی تبدلیاں۔ ہم لوگ اس بات کا خیال نہیں کرتے، اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں اور انھیں چھڑتے ہیں جس کی وجہ سے بھی ان میں مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ یا پھر والدين کا بچوں سے دوستانہ رشتہ نہ ہونا یا انھیں ہر وقت ڈرا کر رکھنا۔'
    ڈاکٹر فرح کا کہنا تھا کہ یہ وہ تمام پہلو ہیں جس کی وجہ سے بچہ گھر والوں سمیت ہر شخص سے چڑتا ہے اور دور رہتا ہے اور اپنے آپ دوسری چیزوں میں مصروف کر لیتا ہے۔ ان کا مزيد کہنا تھا کہ ہم نفسیات کی زبان میں ایسے بچے جو خودکشی کرسکتے ہیں انھیں 'جووینائل' یعنی کمسن اور نوعمر کہتے ہیں۔
         عموماً ان بچوں میں کچھ علامات پائی جاتی ہیں جیسا کہ کسی کی بات نہ سننا، برداشت کم ہونا، لڑنا جھگڑنا، حالانکہ اپنی عمر کے بچوں سے بھی، والدین اگر کسی بات سے روکیں تو اس پر شدد ردعمل دینا وغیرہ دینا شامل ہیں۔'
انھوں نے کہا کہ ایسے بچوں کو روکنے لیے ہمیں چاہیے کہ ہم انھیں سمجھیں اور پیار سے سمجھائیں اور اس عمل کو والدین کو چھوٹی عمر سے ہی شروع کر دینا چاہیے۔
'کوشش کریں کہ بچوں کے ساتھ ہر چیز میں خود حصہ لیں۔ ان کے دوست بننے کی کوشش کریں اور ان کی مسائل کو حل کریں۔'
       انھوں نے مزید کہا کہ کرونا وبا کی وجہ سے آئے ہوئے اس مشکل وقت میں والدین کے علاوہ ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ بچوں اور نوجوانوں کی نفسیاتی حالت کو صحت مند رکھنے کے لیے کوئی بندوبست کریں ان کی رہنمائی کریں جس پر حکومت وقت کی جانب سے بالکل توجہ نہیں دی گئی ہے۔

.................................................................................
in English please read it like and share and give suggestion in comment box

Youths commit suicide over ban on playing online games, police consider shutting down 

'Pub G'


 Youths commit suicide over ban on playing online games, police consider shutting down 'Pub G'
According to Lahore police, two youths have committed suicide in four days in the city after being banned from playing the Wade You game 'Pub G', after which the police have decided to ban all such violent games and online pages. PTA will be requested to block.

According to reports, a 16-year-old resident of Multan Road, Lahore, decided to commit suicide after his parents forbade him from playing online games and he committed suicide by hanging himself from a fan.

According to the police, even after committing suicide, PubG game was playing on his mobile.


Two days before the incident, another 20-year-old man from the city had committed suicide by hanging himself from a fan due to the same game .


Speaking to the BBC, DIG Operations Ashfaq Khan said that the rise in suicide among the youth due to games promoting violence is a sad and worrying process.

He said that these games are like a drug which is addictive so parents and children should not play such games too much while having control over themselves.

 Youths commit suicide over ban on playing online games, police consider shutting down 'Pub G'

What's the end of the Pub G game?
Speaking to the BBC, a user who played PubG said that the game is played under a mission in which the enemy is confronted and guns are used for this purpose.
The user said: 'We can play the game alone and more than one person can join it. So in order to defend ourselves, we have to beat the enemy and win the game.
He added that he plays this game on the computer and "because this game is running online, you can't leave this game anywhere in the meantime." Even if you are going to eat or get up for any work, the other party will kill you.
The user added that there are two types of this game. One is what is played on the computer and the other is what people play on the mobile.
In the PubG game played on mobile, you have many options such as you can change your clothes and your weapon.
The game is played all over the world, which has led to complaints about its negative effects from all over the world. So close the game now.
But it is now up to the player to stop it on time or keep playing.
     Such games should be banned, ”said DIG Operations Ashfaq Khan.“ The job of the police is not just to catch the criminals. It is also our responsibility to change and monitor them.
      Therefore, we have decided that we will make a request to the Pakistan Telecommunications Authority (PTA) to remove all such games, including PubG, which contain an element of violence. Block so that users do not have access to them. He further added that only PTA has the authority to block all these applications and online pages. He said that PTA has people who review and analyze online content. It may be that extremism is spreading in the society because there may be many other games besides PubG that we don't know about, so we can only apply.

 Youths commit suicide over ban on playing online games, police consider shutting down 'Pub G'

Can games like Pubji really lead to suicide?
"I think it would be wrong to say that a child or a teenager committed suicide just because of a game, because it is not possible to commit suicide," psychologist Dr Farah Malik told the BBC. There is only one reason.
    He said that in any case, everyone is confused and frustrated because of Corona and this attitude is increasing among the children because they do not express their worries easily.
Usually children and young people used to spend time with their friends or at school or out of the house but now they have nothing to do and they are all trapped in the house. In that case, they have no choice but to play digital games or search online. Which is why they spend most of their time in the open.
He added that children who take such a big step as suicide already have such thoughts in their personality and the reason is not just one factor.
"We've seen a lot of hormonal changes in babies as they get older. Such as voice changes or physical changes in boys. We don't care about that, and we make fun of them and ridicule them, which also causes them frustration. Or the parents not having a friendly relationship with the children or scaring them all the time.
    Dr. Farah said that these are all aspects due to which the child climbs up and stays away from everyone including the family and keeps himself busy with other things. "In the language of psychology, we call children who can commit suicide 'juveniles,'" he said.
         These children usually have some symptoms such as not listening to anyone, lack of tolerance, fighting, arguing, even with children their own age, reacting violently if their parents stop them, etc.
"In order to prevent such children, we need to understand them and explain them with love, and parents should start this process at an early age," he said.
"Try to do everything yourself with the children. Try to be their friend and solve their problems.
       He further said that in this difficult time due to the Corona epidemic, it is the responsibility of the government besides the parents to make arrangements to keep the mental condition of the children and youth healthy and to guide them on which the government has spent time. Not paid attention at all.
Like and share the post on your social media profile
give more suggestions in comment box.