سکول میں میرا پہلا 

         

میری عمر تو اس وقت آٹھ نو برس کی ہوگی لیکن سکول.   میں وہ میرا پہلا دن تھا ۔ دراصل میں پہلے تین درجوں کی کتابیں گھر پر ہی پڑھ چکا تھا لہذا اس دن پہلے درجے نہیں چو تھے درجے میں داخلے کی تیاری تھی۔ شاید اسی سبب سے گھر کے سب لوگ مجھے سکول بھجوانے کے لیے ضرورت سے زیادہ اہتمام کر رہے تھے ۔

  سکول ہمارے گھر سے ذرا فاصلے پر تھا اس لیے اصطبل سے دو گھوڑوں والی فٹنس نکلوائی گئی۔ یہ فٹنس ہمارے آبا جان سال میں دو بار عید گاہ جانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔پجر میری بڑی بہنو ں نے لاڈ میں آکر مجھے بہت بھڑ کیلے اور پر تکلف کپڑے پہنائے جو عام طور سے شادی اور بیاہ کے مو قعوں پر پہنائے جاتے تھے۔۔۔۔۔۔۔یعنی سرخ مخمل کا کوٹ اور نیکر ،پیازی رنگ کے موزے اور سفید جوتے ۔

یہ سب کچھ مجھے آج بھی اس لیے یاد ہے کہ اس دن سکول میں میرے ساتھ گزری اس میں زیادہ تر ہاتھ اسی لباس کا تھا ۔ خیر اس باراتیوں کی اس وضع قطع میں ہم گاڑی میں بیٹھ گئے ۔ایک ملازم ہماری کتابیں اٹھائے ساتھ ہوا اور ہماری سواری اسلامیہ پرائمری سکول سیالکوٹ کی ایک منزلہ پرانی عمارت کے سامنے جا کھڑی ہوئی ۔

جیسے ہی میں اپنی فٹنس سے نیچے اترا کچھ لڑکے جو سکول کے باہر ادھر ادھر گھوم پھر رہے تھے ، مجھے دیکھتے ہی زور زور سے غل مچاتے ہوئے سکول کی اندر کی طرف بھاگے۔

لڑکوں کا زور سن کر ایک دو استاد صاحبان ہڑ بڑا کر باہر نکل آئے۔

پہلے ہی مارے خوف کے کلیجہ منہ کو آرہا تھا ، اس شور اور ہنگامے کی وجہ سے آسون خطا ہو گئے۔

ملازم کے  پیچھے پیچھے بہت آہستہ اور مری ہوئی چال میں جب میں نے سکول میں قدم رکھا تو ہر طرف سے بے شمار آنکھیں یوں گھورتی ہوئی نظر آئیں جیسے کوئی چڑیا گھر کا جانور سکول میں آگھسا ہے۔

  تھوڑی دیر بعد چوتھے درجے کے استاد صاحب مجھے کمرے میں ساتھ لے گئے۔ماور کہا ، جہاں جی چاہے بیٹھ جاؤ،

ہمارا شہر بھر غریب تھا اور یہ سکول بھی غریب پڑھنے والے بھی غریب تھے اور پڑھانے آلے بھی غریب۔

کمرے میں مٹی کے فرش پر کٹا پھٹا سا ٹاٹ بچھا ہوا تھا اور اس پر ویسے ہی کٹے پھٹے ہوئے کپڑوں والے بہت سے  لڑکے بیٹھے ہوئے تھے۔ 

میں جب ان میں جاکر بیٹھا تو میرا جی چاہا کوئی جن یا پری آئے چپکے سے میرے سب کپڑے کے جائے اور مجھے اپنے ساتھیوں جیسا پھٹا پرانا کرتا اور پاجامہ ہہنادے۔

سارا دن میں لڑکوں کے مختلف فقرے اور بھپتیاں سنتا رہا اور میرے ہم جماعت لڑکوں کی آنکھوں سے سارا دن میرے لیے طنز اور حقارت برستی رہی۔

اس دن مجھے محسوس ہوا کہ آدمی ٹھیک سے جب ہی رہ سکتا ہے کہ اپنے ساتھیوں ، ہم کولہوں اور ہم وطنوں سے مل جل کر ان جیسا بن کر رہے۔ دوسروں سے الگ اور افضل نظر آنے کی خواہش گھٹیا اور احمقانہ بات ہے۔

فیض احمد فیض ۔