Shad academy of science and arts  video lectures Lesson hospital class 6 APSACS  lecturer Waheed Shad

 سبق کا  نا م : ہسپتال
مصنف کا نام : قدرت اللہ شہاب

ایپسیکس آن لائن سپورٹ پروگرام  میں آپ کو خو ش آمدید کہتا ہوں ۔ میرا نام وحید شاد ہے آج کا آرٹیکل دسویں ہفتے کی اسائنمنٹ پر مشتمل ہے ۔
سبق کے عنوانات کو مناسب وقت اور توجہ دینے کے لیے مختلف دنوں میں تقسیم کیا گیا ہے ، جس کے لیے آپ ویڈیو ملاحظہ فرما سکتے ہیں ۔
سبق کا تفصیلی مطالعہ آپ خود  کریں گے اور مطالعہ کے دوران سبق کے اہم نکات کی نشاندہی کی جا سکتی ہے ، مشکل الفاظ  کو خط کشید کر کے ان کے معنی تحریر کر سکتے ہیں ۔ بلند خوانی درست تلفظ کے ساتھ کریں ۔
یہاں آ پ کو سارا سبق بیان نہیں کیا جائے گا بلکہ آ پ کی سہولت  کے لیے سبق سے چند اہم اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ جن سے آپ اپنے تحریری کام کرنے میں مدد لے سکتے ہیں 
مصنف کا تعارف۔

قدرت اللہ شہاب سرکاری ملازم ہونے کے ساتھ ساتھ اردو ادب میں افسانہ نگار،مضمونگاراور کہانی نویس کے طو ر پر بھی اپنا ایک خاص مقام رکھتےہیں ۔
سبق کا مختصر تعارف:
  مریض اپنی بساط کے مطابق اپنے مرض کی خود تشخیص کرتا تھا اور ڈاکٹر صاحب بڑی صورت کے ساتھ نسخہ لکھ کر اس کے حوالہ کر دیتے تھے ۔ غالبا یہ نسخے تعویز کی مانند استعمال ہو تا تھا کیو نکہ مریض نسخہ لیکر بغیر دوائی مانگے واہاں سے واپس چلا جاتا تھا ۔
مجھے خاکی پتلون اور سفید شرٹ میں دیکھ کر ڈاکٹر صاحب نے مجھے اپنے سامنے بنچ پر بیٹھا لیا ۔ ڈا کٹر صاحب اکثر مجھے اپنے مریضوں پر ترجیح دینے کی کو شش کر تے رہے لیکن میں انہیں یہی کہہ دیتا تھا کہ میری تکلیف ذرا پیچیدہ سی ہے میں آخر میں اپنا حال بتاؤں گا ۔
ڈاکٹر صاحب میرے دماغ میں ایک خلل سا واقع ہونے لگا ہے اور مجھے بیٹھے بیٹھے ایک وہم ہو گیا ہے کہ میں ضلع جھنگ کا ڈپٹی کمشنر لگ گیا ہوں ۔
ڈاکٹر صاحب نے پھرتی سے اپنی ٹانگیں میز سے نیچے اتار لیں ،
اوپر سے نیچے تک انہوں نے مجھے غور سے گھورا تو جب انہیں اچھی طرح اطمینان ہو گیا کہ مری تراش خراش میں ڈپٹی کمشنری کی کوئی علامت نہیں تو وہ کرسی پر بیٹھ گیا اور ایک گھٹنے پر کا غذ لیکر بیٹھ گیا غالبا ڈاکٹر صاحب نسخہ لکھنے میں مشغول ہو گیا ۔ ڈاکٹر صاحب یہا ں نو سال سے میسحائی فرما رہے تھے ،اور انہیں فخر تھا اس دوران ملیریا کے مریضوں کی تعداد میں  75 فیصد ، پیچش کے مریضوں میں 50فیصد اور خارش کے مریضوں میں 45 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ ڈسپنسری کا معائنہ 1931 میں ہوا تھا ۔
ڈاکٹر صاحب نے مجھے ہسپتال کا ان ڈور وارڈ بھی دکھایا جس میں غا لبا انکی بھینس باندھی جا تی تھی کیونکہ ایک کو نےمیں تا زہ تازہ گوبر کے نشا نات مو جو د تھے جنہیں ابھی ابھی صاف کیا گیا تھا ۔
معائنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مجھے visitor book دی جس میں مجھے اپنی رائے کا اظہار کرنے کا کہا گیا ۔ میں نے فی البدیہہ عرض کیا ۔
" دنیائے طب میں یکہ ہسپتال سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے یہا ں دوائیوں کی جگہ نسخوںسے علاج کیا جا تا ہے ۔ مریضوں کی تعداد میں روز بروز ترقی پر ہے ہسپتال میں داخل ہو نیوالے مریضوں کے لیے بھینسوں کا تازہ دودھ خاطر خواہ انتظام ہے کیونکہ وارڈ میں بھینس بندھنے کا بھی اچھا بندو بست ہے اور گو بر بھی  وقت پر اٹھا لیا جا تا ہے ۔ مکھیوں کی آمدورفت پر بھی کوئی خاص پابندی عائد نہیں ۔"
بعد میں چند ماہ بعد مجھے اس ڈسپنسری کا دوبارہ دورہ کرنے کا مو قع ملا  تو ڈاکٹر صاحب کی بھینس بد ستور بندھی ہوئی تھی ۔ لیکن Visitor book  میں جہاں میری رائے درج تھی وہ صفحہ غائب تھا ۔
آپ سبق کا بغور مطالعہ کریں گے تو آپ کو مزید چند اہم نکات ملیں گے جنہیں آپ ذہن نشین رکھ سکتے ہیں ۔
 سبق کے اہم نکات :


سبق کا فکری پہلو:۔

 صحت کی سہولیات کی فراہمی عوام کا بنیادی حق ہے۔
آج بھی ملک کے دور دراز علاقے طبی سہولیات سے محروم ہیں۔
جہاں یہ سہولیات مو جو د ہیں  واہاں ادویات اور طبی عملے کی کمی ہے 
جس کی وجہ سے خا طر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا ۔


قدرت اللہ شہاب کی مشہور زمانہ تصانیف کی ایک جھلک۔
شہاب نامہ
سرخ فیتہ
ماں جی
یاخدا
ذکر شہاب 

نوٹ: مزید رہنمائی کے لیے ویڈیو ملاحظہ فرمائیں ۔