حضرت موسی اور حضرت خضر کا واقعہ ؟
صبر کیوں کریں

        سورت الکھف میں حضرت موسی اور خضر علیہ السلام کاایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے قرآن میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غوروفکر کرتے ہیں ۔ اس واقعے میں موسی علیہ السلام کی آزمائش کی گئی تھی کہ وہ صبر کرتے ہیں یا نہیں !  خضر علیہ السلام نے موسی علیہ السلام سے کہا کہ اگر آپ میرے ساتھ چلنا چاہتے ہیں تو مجھ سے آپ کچھ بھی مت پوچھیے گا۔ یہاں تک کہ میں خود اس کی نسبت تذکرہ کروں ۔ دونوں ساتھ چلے ۔ یہاں تک کہ ایک کشتی میں سوار ہوئے ۔ اور خضر علیہ السلام نے اس کشتی کے تختے توڑ دیے موسی علیہ السلام کو یہ بات عجیب لگی کیوں کہ وہ اس کے پیچھے کی حکمت سے ناواقف تھے ۔ اس لئے انہوں نے  خضر علیہ السلام سے کہا  کہ آپ نے ان کی کشتی اس لیے توڑ دی ہے تاکہ آپ کشتی والوں کو ڈبو دیں؟؟
 تب خضر علیہ السلام نے کہا کہ میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے۔ تب موسی علیہ  السلام نے ان سے معافی مانگی کہ اب وہ خاموش رہیں گے ۔ کچھ نہیں پوچھیں گے ۔آگے چلے تو خضر علیہ السلام نے ایک لڑکے کو مار ڈالا ۔ تب پھر موسیٰ علیہ السلام کو یہ بات بری اور عجیب لگی اور انہوں نے کہا کہ آپ نے ایک معصوم جان کو بغیر کسی عذر کے قتل کر ڈالا۔ علیہ السلام بولے کہ میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ۔ موسی علیہ السلام نے دوسری دفعہ ان سے معذرت کی اور کہا کہ میں اب بالکل کوئی سوال نہیں کروں گا ۔ آگے دونوں ایک گاؤں میں پہنچے ۔ جہاں کے لوگوں نے ان کی مہمان نوازی نہیں کی مگر خضر علیہ السلام نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گرنے والی تھی اور انہوں نے اسے ٹھیک کر دیا ۔موسی علیہ السلام چونکہ اس دیوار کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے اس لئے انہوں نے خضر علیہ السلام سے کہا کہ اگر آپ چاہتے تو ان لوگوں سے اس کی اجرت لے سکتے تھے ۔ تب خضر علیہ السلام ناراض ہوگئے اور بولے اب بس ۔ آگے ہم  ساتھ سفر نہیں کرسکتے مگر میں آپ کو ان باتوں کی اصلیت بتا دیتا ہوں جن پر آپ سے صبر نہیں ہو سکا ۔  کشتی تو چند مسکینوں کی تھی جو دریا میں کام کاج کرتے تھے ۔میں نے اس میں کچھ توڑ پھوڑ کرنے کا ارادہ کرلیا کیوں کہ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا ۔جو ہر ایک (صحیح سالم) کشتی کو زبردستی ضبط کر لیتا تھا ۔ اور اس نوجوان کے ماں باپ ایماندار تھے ہمیں خوف ہوا کہ کہیں  یہ انہیں اپنی سرکشی اور کفر سے عاجز اور پریشان نہ کر دے اس لیے ہم نے چاہا کہ  انہیں ان کا پروردگار اس کے بدلے اس سے بہتر پاکیزگی والا اور اس سے زیادہ محبت و پیار والا بچہ عنایت فرمائے ۔ دیوار کا قصہ یہ ہے کہ اس شہر میں دو یتیم بچے ہیں جن کا خزانہ ان کی اس دیوار کے نیچے دفن ہے ان کا باپ بڑا نیک شخص تھا۔  تو تیرے رب کی چاہت تھی کہ یہ  دونوں یتیم اپنی جوانی کی عمر میں آکر اپنا یہ خزانہ تیرے رب کی مہربانی اور رحمت سے نکال لیں۔ یہ تھی اصل حقیقت ان واقعات کی جن پر آپ سے صبر نہ ہو سکا ۔
 اب ہم واپس اپنی زندگیوں کی طرف آتے ہیں  ہماری زندگیوں میں بہت کچھ ایسا ہو رہا ہوتا ہے جس کی حکمت، اور جس کے پیچھے کی کہانی سے ہم ناواقف ہوتے ہیں۔ مگر کچھ وقت گزرنے کے بعد اللہ ہمیں اس واقعے کے پیچھے چھپی حکمت دکھا دیتا ہے ۔ جیسے خضر علیہ السلام نے موسی علیہ السلام کو ہر واقعے کے پیچھے چھپی کہانی بتائی تھی ۔ حقیقت جان لینے کے بعد انہیں اس بات پر افسوس ہوا کہ  انہوں نے اس پر صبر کیوں نہ کیا ؟ پہلے موسی علیہ السلام سمجھے تھے کہ حضرت حضرت ایک غلط کام کر رہے ہیں مگر جب انہیں ان کاموں کی حقیقت معلوم ہوئی تو انہوں نے جانا کہ ان  کاموں میں جو بظاہر  نا  پسندیدہ نظر آتے تھے،  بالکل بھلائی اور خیر چھپی تھی ۔ ایسے ہی ہماری ذندگیوں میں بھی کچھ بدترین ہو جاتا ہے  تو  ہم بس یہی سوچتے رہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ اس واقعے کے پیچھے ہمیں کوئی خیر کوئی اچھائی دکھائی نہیں دیتی۔ مگر وقت گزرتا ہے تو سمجھ میں آجاتا ہے کہ اس کے پیچھے بھی ہمارے لئے بھلائی چھپی  تھی۔ دیکھیں اس دنیا میں پرفیکشن کہیں پر بھی نہیں ہے ۔ ہر چیز میں کچھ خیر اور کچھ شر  ہوتا ہے ۔ *ہمیں اس کے خیر کو لینا ہوتا ہے اور شر کو چھوڑدینا ہوتا ہے۔* اس دنیا میں کچھ بھی نہ مکمل طور پر اچھا ہے اور نہ ہی مکمل طور پر برا ہے ۔ کیوں کہ پرفیکشن تو اس دنیا میں ہے ہی نہیں۔ پرفیکشن تو صرف آخرت میں ہوگی ۔ 
جنت میں سب کچھ اچھا ہوگا وہاں کوئی شر نہیں ہوگا اور جہنم میں سب کچھ برا ہوگا وہاں کوئی خیر نہیں ہوگی۔اس دنیا میں  کوئی بھی چیز مکمل طور پر اچھی اور بری نہیں ہے ۔ ہر شے میں کچھ خیر اور کچھ شر پوشیدہ ہے ۔ اس لیے زندگی میں جب کبھی کوئی مشکل آجائے تو اس کے ساتھ آسانی  بھی ہوتی ہے۔ زندگی میں پیش آنے والا کوئی واقعہ یا حادثہ جو سب سے برا لگتا ہو، اس میں بھی کہیں نہ کہیں خیر چھپی ہوتی ہے ۔وہ واقعہ اور حادثہ بھی بہت سے اچھے سبق سکھا کر گیا ہوتا ہے ۔ مگر ہم تو چیزوں کی مثبت سائیڈ کو دیکھتے ہی نہیں ہیں ۔ تصور کریں اگر زندگی میں سب کچھ بالکل اچھا ہوتا کوئی مسئلہ، کوئی مشکل نہ ہوتی ،تو زندگی کیسی ہوتی؟ کیا ہم اللہ سے وہ تعلق بنا پاتے جو ہم زندگی میں آنے والے مسئلوں اور مشکلات کی وجہ سے بنا پاتے ہیں؟ کچھ برا ہو جائے تو ہم بھی کنفیوز اور پریشان ہو جاتے ہیں جیسے موسی السلام ہو گئے تھے۔ انہی مسائل میں تو اللہ ہمارے صبر کا امتحان لیتا ہے تاکہ وہ ہمیں  ہمارے صبر کا اجر دے ۔ اور پھر بعد میں اللہ تعالی ہمیں  اس واقعے کے پیچھے چھپی حکمت بھی دکھا دیتا ہے۔  ہماری زندگیوں میں مسئلے اور پریشانیاں لاکر اللہ ہمیں صبر کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ ہمیں اس کا اجر دے مگر ہم اس اجر اور ثواب کمانے کے موقعے کو رونے دھونے میں گزار دیتے ہیں۔
موسی السلام نے سیکھنےکے لئے خضر علیہ السلام کے ساتھ سفر کیا تھا۔ اور اللہ تعالی ہماری زندگی میں مسائل بھی ہمیں  *کچھ سکھانے* کے لیے لاتا ہے ۔ مگر ہم انسان مسائل کی مثبت سائیڈ کو نہیں دیکھتے ۔ ہم ان مسائل پر  صبر نہیں کر سکتے۔ جیسے موسی علیہ السلام نہیں کرسکے تھے ۔ جیسے موسی علیہ السلام ، خضر علیہ السلام کے ساتھ سے محروم ہوگئے تھے۔  اسی طرح ہم صبر نہ رکھ کر اجر اور ثواب سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ 
 خضر علیہ السلام نے نے جو کچھ کیا موسی علیہ السلام کو لگا یوں نہیں ہونا چاہیے تھا یوں ہونا چاہیے تھا جیسے ہماری ذندگیوں میں کچھ ہوتا ہے تو ہم سوچتے ہیں کاش اس طرح نہ ہوتا اس طرح ہوتا* 
ہم انسان اپنی سمجھ کے مطابق سوچ رہے ہوتے ہیں ۔ خضر علیہ السلام کا علم موسی علیہ السلام سے زیادہ تھا ۔ اس لئے پہلے موسی علیہ السلام نے یہی سوچا کہ خضر علیہ السلام کو اس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا  مگر جب انہیں پتہ چلا کہ خضر علیہ السلام نے یہ سب کیوں کیا تو انہوں نے جانا کہ خضر علیہ السلام نے جو کیا بہتر کیا ۔
بالکل اسی طرح ہم چونکہ کم علم رکھتے ہیں اس لیے ذندگی میں جب کچھ برا ہوجائے تو ہم سوچتے ہیں کاش یہ واقعہ یوں نہ ہوا ہوتا مگر جب ہمیں اس کے پیچھے کی حکمت سمجھ میں آتی ہے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے بہتر کیا تھا ۔

 تھوڑا وقت گزرنے کے بعد  اللہ تعالی انسان  کو اس کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور حادثات کی پیچھے چھپی حکمت بھی دکھا ہی دیتا ہے ۔ مگر انسان بس صبر نہیں کر سکتا ۔ بعض دفعہ جو چیزیں ہمیں بہت پسند ہوتی ہیں ان میں بھی ہمارے لئے شر چھپا ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں وہ چیزیں نہیں دے رہا ہوتا کیونکہ اللہ تعالی ہمیں *بچا* رہا ہوتا ہے کیونکہ اللہ جانتا ہے ہم نہیں جانتے۔ اور ہم پریشان ہوجاتے ہیں ۔ امید کھو دیتے ہیں ۔ بد دل ہوجاتے ہیں ۔ حلانکہ اگر ہم گہرائی میں سمجھیں تو چیزوں کے ہونے یا نہ ہونے ، دونوں میں ہی اللہ کی طرف سے خیر ہوتی ہے ۔ ہر کام اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے ۔ زمین پر کوئی پتہ بھی اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں گرتا ۔ ہماری زندگیوں کو اللہ نے پلان کیا ہے ۔ ہماری زندگیوں میں کچھ بھی *خوامخواہ* نہیں ہو رہا ہوتا سب کچھ اللہ کی مرضی سے ہو رہا ہوتا ہے۔ 
صبر کریں گے تو اس میں ہمارا اپنا ہی فائدہ ہے ۔۔۔ 
اللہ تعالی فرماتا ہے۔
*"میں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوں"*
زندگی میں بڑے بڑے مسئلے آجائیں ۔ مگر بدلے میں اللہ تعالی کا *ساتھ* مل  جائےتو انسان کو اور کیا چاہیے؟ اللہ کے *ساتھ* سے بڑھ کر کسی انسان کے لئے اور کیا اہم ہوسکتا ہے ؟ 
 اللہ تعالی فرماتا ہے۔ 
*وبشر الصبرین*
*اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو*
 مصائب پر صبر کرنے والوں کے لئے اللہ کی طرف سے خوشخبری ہے ۔۔ اجر ہے ۔۔ اور بے شک اللہ تعالی کسی کا اجر ضائع نہیں کرتا ۔ 

*وَٱصْبِرْ فَإِنَّ ٱللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ ٱلْمُحْسِنِينَ*

*اور صبر کرتے رہو کہ اللہ  نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا*
اللہ تعالی سے ہمیشہ خیر مانگیں۔ کہ اللہ تعالی آپ جو بھی *خیر* میری طرف اتاریں میں اس کی محتاج ہوں ۔
اللہ تعالی ہمیں مصائب آنے پر صبر کرنے والا بنائے اور ہمیں اس میں موجود خیر تلاش کرنے کی توفیق دے ۔آمین ثم آمین