کاندھا دیجیے کاندھے دیے جانے سے پہلے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک لڑکا بہت چھوٹا سا تھا تو اس کی ماں نے اس سے پوچھا کہ بیٹے آپ
کو معلوم ہے کہ کسی بھی انسان کے جسم کا سب سے اہم عضو کونسا ہوتا ہے؟
بچہ کافی دیر تک سوچتا رہا اور پھر بولا کہ اس کے
کان کیونکہ کانوں سے ہم سب
کچھ سنتے ہیں اس لیے کان سب سے اہم ہوتے ہیں۔
اس کی ماں مسکرائی اور بولی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی
آپ اور سوچو۔میں بعد میں آپ سے پوچھوں گی۔اس عورت نے بہت سال دوبارہ اپنے بیٹے سے
یہ سوال نہیں کیا۔تین سال بعد اس نے اپنے بیٹے سے پھر پوچھا کہ اب بتاؤ کہ سب سے
اہم انسانی عضو کونسا ہوتا ہے؟لڑکا سوچتا رہا اورپھر بولا کہ امی آنکھیں کیونکہ ان
سے ہم سب کچھ دیکھتے ہیں۔اس کی ماں نے بولا کہ تم ابھی بھی بہت چھوٹے ہو اور اسی
لیے تمہاری عقل کچی ہے۔آپ اس بارے میں اور سوچنا میں بعد میں دوبارہ پوچھوں گی۔جب
وہ لڑکا اٹھاراں سال کی عمر کو پہنچا تو اس کے والد کی وفات ہو گئی ۔سب لوگ رو رہے
تھے ۔گھر میں ایک کہرام مچا ہوا تھا۔وہ عورت اپنے بیٹے کے پاس گئی اور اس سے بولا
کہ آپ کو یاد ہے کہ میں آپ سے پوچھتی تھی کہ سب سے اہم جسمانی عضو کونسا ہوتا ہے؟
وہ لڑکا رو رہا تھا ۔اس نے بولا کہ مجھے نہیں پتہ…مجھے صرف یہ پتہ ہے کہ میرا دل
پھٹ رہا ہے۔اس عورت نے بولا کہ بیٹے سب سے اہم عضو انسان کے کندھے ہوتے ہیں۔
لڑکا
حیرت سے اپنی ماں کو تک رہا تھا کہ اس بات کا کیا مفہوم ہے تو اس کی ماں پیار سے
بولی کہ باقی سب عضو تو ہم اپنی خود غرضی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اپنی بینائی کے
لیے، اپنی سماعت کے لیے۔اپنی بھوک پیاس مٹانے کو مگر یہ کندھے بالکل خود غرض نہیں
ہوتے۔یہ دوسروں کو سہارہ دیتے ہیں۔ ہر مشکل وقت میں تمہارے دوست اور رشتہ دار
تمہارے کندھے پر سر رکھ کر رو سکتے ہیں دل ہلکا کر سکتے ہیں۔ وہ لڑکا سمجھ گیا تھا
اور مسلسل رو رہا تھا ۔اس نے اپنی ماں کے کندھے پر سر رکھ لیا اور اس کو سکون نصیب
ہوا۔ابھی اس نے اپنی ماں کے کندھے کا سہارہ لیا تھا اور تھوڑی دیر میں اس نے اپنے
باپ کے جنازے کو کندھا دینا تھا۔ انسانی زندگی صرف رشتوں ناتوں کی بنیاد پر چل رہی
ہے۔ہم آج کی دنیا کے مطابق مقابلہ بازی میں وقت ضائع کرتے رہتے ہیں۔جس انسان کو
کامیابی اور پیسہ مل جاتا ہےوہ جب بالکل تنہا رہ جاتا ہے تو سمجھ آتی ہے کہ رشتے
اتنے اہم کیوں ہوتے ہیں۔ انسان کی کوئی خوشی مکمل نہیں جب تک وہ اس کو کسی کے ساتھ
بانٹتا نہیں ۔ انسان کا کوئی غم کم نہیں ہو سکتا جب تک وہ اس کو باقیوں کے ساتھ
بانٹے نہیں ۔رشتے ناطے جدھر ہمیں سخت ناگوار گزرتے ہیں ادھر اس بات سے منہ نہیں
موڑا جا سکتا کہ زندگی کا اصل سہارا صرف اور صرف یہی رشتے ناطے ہوتے ہیں باقی سب
انسان کی بے سروپا حسرتیں ہیں۔ رشتوں کو مضبوط کرنا چاہیے غلطیوں کی معافی مانگ
لینی چاہیے اور معاف کر دینا بھی چاہیے مگر سب معاملات میں دل کا خالص ہونا بھی
ضروری ہے جو لوگ ہماری خوشیوں کو کندھا دٸیے ہمارا سہارا بنے ہوتے ہیں ان کی قدر کرنی چاہیے ۔ کندھوں کو مضبوط
بناٸیں تا کہ آپ بھی دوسروں کو بے غرض سہارا دے سکیں ۔ بڑے انسانوں میں
ایک نام ایدھی کا تھا جو سہارا بنتا تھا جو کندھا دیتا تھا جو مسکراہٹیں بانٹنے کا
کاروبار کیا کرتا تھا جو زندگیاں ہنسایا کرتا تھا وہ کندھا آج بھی مضبوط ہے ۔ اکیلا
انسان کچھ بھی نہیں ۔معاشرہ ایک دوسرے سے وابستگی ایک دوسرے کا کندھا بن کر چلنے
سے ہی قائمہے چاہے ضروریات زندگی ہی کے لیے مگر اخلاص
سے کندھا بنیے۔جب آپ دوسروں کے مشکل وقت میں انہیں سہارا دیں گے تو خدا آپ کو بے
سہارا نہیں ہونے دے گا۔زندگی میں بھی اور زندگی کے بعد بھی۔ دوسروں کوسہارا دیجیے
دوسروں کو کندھا دیجیے اس سے پہلے کے آپ کو کندھا دیا جاۓ۔
There is no exercise better for the heart than reaching down and
lifting people up