3-Step of Success

کامیابی کے تین اہم اقدام۔


  • Learn سیکھنا 
  • Unlearn بھولنا
  • ReLearnدوبارہ سیکھنا

    • سیکھناLearn  
        زندگی کے ہر حصہ میں ہمیں سیکھنا پڑتا ہے جو کہ بچپن سے لیکر بوڑھاپے تک حتی کہ موت تک ہماری زندگی سیکھنے میں ہی گزر جاتی ہے،
    آپ کا فرمان ہے کہ علم حاصل کرو ماں کی گود سے لیکر قبر کی آغوش تک ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم پوری زندگی سیکھنے کی جستجو میں رہتے ہیں۔انسان کی کا میابی کا راز بھی سیکھنے کی جستجو میں پو شیدہ ہے۔ جو جتنا زیا دہ سیکھتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ کامیاب ہوتا ہے ۔مشہور معقولہ ہے۔
Learning  is the key to success

  • بھولنا:Unlearn 

      بھولنا یہ کیسے زندگی کے لیے ضروری ہے۔ بعض اوقات ہمیں اپنی پرانی صلاحیتوں اور نالج کو بھولانا پڑتا ہے تاکہ ہم دورِ حاضر کے تقاضوں کو سجمھ سکیں اور ان کےمطابق اپنے آپ کو ڈھال سکیں۔ اگر ہم اپنی پرانی ان پٹس کو ذہن سے نہیں نکالیں گے تب تک ہم گے نہیں بڑھ سکیں گے۔یہاں میں آپ کو ایک مثال دینا چاہتا ہوں اور مثال ایسی شخصیت کی ہے جسے ہم سب بخوبی جانتے ہیں، میری مراد جناب عمران خان صاحب
        عمران خان صاحب نے 1971 میں اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا اسوقت پاکستان کی ٹیم کو ایک  ایسے فاسٹ باؤلر کی ضرورت تھی جو فاسٹ بالنگ کے ساتھ ساتھ بال کو سوینگ بھی کر سکیں لیکن عمران خان اسوقت میڈیم سپنر تھے۔ اسوقت تمام عالمی میڈیا کی نیوز میں یہ بات گردش کر رہی تھی کہ عمران خان نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان دو سال کے لیے کرکٹ میدان سے باہر رہے لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل اپنی صلاحیتوں کو نکھارتے رہے اور اپنے داد دیے بغیر نہ رہ سکی اور عمران خان کی ولولہ انگیز قیادت میں پاکستان 1992ورلڈ چمپین بنا۔۔
ارادے جن کے پختہ ہو نظر جن کی خدا پر ہو
طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے

  •  دوبارہ سیکھنا Relearn
  پرانا جائے گا تو نیا آئے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔


مطلب یہ کہ اگر ہم پرانے پرزے جو خراب ہوگئے ہیں ان کی جگہ نئے پرزے لے لیتے ہیں۔۔۔۔ایسے ہی جب ہم اپنے پرانے نالج کو نئے نالج سے بدلتے ہیں تو ہمارے اندر ایک نیا جذبہ ایک  نئی توانائی کے ساتھ  پھر سے ابھر آتے ہیں۔
جیسے ہم نے عمران خان صاحب کی مثال لی انہوں نےدو سال اپنے آپ کو اپڈیٹ کیا اور نئی صلاحیتوں کو سیکھ کر جب وہ منظر عام پر آئے تو کمال کر کے دکھایا
           ایگل یعنی شاہین کے بارے میں تو آپ سب جانتے ہی ہو گے شاہین کو آسمانوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے لیکن اس پر ایک کھٹن وقت آتا ہے اور وہ اکیلا اپنے آپ کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جاتا ہے۔۔۔۔یہ وہ وقت ہے جب اسے کے پر اتنے بڑے ہو چکے ہو تے ہیں کہ  جس کی وجہ سے وہ پروازنہیں کر سکتا۔ 
چونچ لمبی ہو چکی ہو تی ہے ، اور پنجوں  کے ناخن بھی حد سےزیادہ لمبے ہو چکے ہو تے ہیں ان سارے مسائل کی وجہ سے شاہین نہ تو پر واز کر سکتا ہے ، نہ وہ شکار کر سکتا ہے۔اب اسے بھوکا پیاسا تن و تنہا واہاں رہنا ہے اب اس کے پاس آپشن ہے کہ یا تووہ اپنی پرانی صلاحیتوں کے ساتھ یونہی بھوکا پیاسا مر جائے یا پھر اپنے آپ کو Unlearn کے پراسیس سے گزار کر Relearn کے پراسیس میں داخل کریں جو کہ کٹھن اور دشوار گزار طریقہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

       چنانچہ ایگل Relearn کرتا ہے اپنے آپ کو نئے سرے سے منظم کرتا ہے  اپنی لمبی سی چونچ کو پہاڑ کی چوٹی پر زور زور سے مار کر اپنی چونچ کو توڑتا ہے ،پھراپنے بڑے بڑے پرو ں کو اکھاڑتا ہے ، پھر اپنے پنجوں کے ناخنوں کو نکالتا ہے اس عرصہ میں ایگل انتہائی مشکلات و تکالیف سے دو چار ہوتا ہے لیکن وہ ہمت نہیں ہارتا نہ وہ سوچ و بچار میں اپنا وقت ضائع کرتا ہے بس ایکشن کرتا ہے۔ جیسے ہی وہ اس مرحلہ سے نکلتا ہے تو ایک نئے جزبے سے سرشار ہوکر دوبارہ سے اپنے مشن پر نکلتا ہے ان تکالیف و مشکلات کو برداشت کر کے وہ مزید چالیس سال زندہ رہتا ہے۔۔۔۔
اقبال نے بھی کیا خوب کہا ۔۔۔۔
پلٹنا جھپٹنا جھپٹ کر پلٹنا 
لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ



اس لیے ہمیں بھی اگر کامیابی کے ان تین اہم نکات پر عمل پیرا ہوکر اپنی زندگی کو مزید خو بصورت بنا سکتےہیں ۔ مجھے امید ہے کہ آپکو یہ کہانی ضرور پسند آئی ہو گی اپنی قیمتی آراء سے مجھے ضرور مطلع کریں۔شکریہ